Thursday, 21 September 2017

چھیڑ دیتا ہے دل پھر سے پرانی کوئی بات by Tahir Aziz

چھیڑ دیتا ہے دل پھر سے پرانی کوئی بات
کوئی دکھ کوئی گلہ کوئی کہانی کوئی بات
ایک چُپ تھی کہ جو خوشبو کی طرح پھیلی تھی
صبح دم کہہ نہ سکی رات کی رانی کوئی بات
اہلِ گلشن کا تو شیوہ ہے کہ بدنام کریں
گُل بھی سنتا کبھی بلبل کی زبانی کوئی بات
وہ ترا عہدِ وفا تھا کہ وفائے وعدہ
میں کہ پھر بھول گیا یاد دلانی کوئی بات
جانے کیوں اب کے پریشاں ہیں ترے خانہ بدوش
ورنہ ایسی بھی نہ تھی نقلِ مکانی کوئی بات
جس طرح ساری غزل میں کوئی عمدہ مصرع
جس طرح یاد میں رہ جائے نشانی کوئی بات
اہلِ دستار و قبا تُرش جبیں کیوں ہیں فرازؔ
کہہ گئی کیا مری آشفتہ بیانی کوئی بات
؟

0 comments:

Post a Comment