Monday 10 July 2017

وٹامن ڈی اور عجائبات قدرت ۔۔۔۔ از محمد طاہر عزیز ، اوسلو ،ناروے

وٹامن ڈی اور عجائبات قدرت ۔۔۔۔ 
از محمد طاہر عزیز ، اوسلو ،ناروے 

قارئین گرامی ۔۔۔ مجھے یہاں اوسلو ناروے میں تقریبا 9 ماہ ہونے کو ہیں یہاں مسلم آبادی کثیر تعداد میں موجود ہے خصوصا اہل پاکستان کو ناروے کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے ، مسلم آبادی میں محب وطن اور محب دین بھی موجود اور دین بیزار طبقے بھی بکثرت موجود بلکہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بھی موجود اور ماں کوگالی دے کر دشمن سے داد پانے والے بھی اکا دکا پائے جاتے ہیں مگر محبت کرنے والے ان کی نسبت کہیں زیادہ اسی لیے بقول حضرت سعدی علیہ الرحمۃ کے میرے پاس وقت نہیں نفرت کرنے والوں کی نفرت میں پریشان ہونے کا میں مصروف رہتا ہوں ان کی محبت میں جو حد سے زیادہ محبت کرتے ہیں اور ھمارا بھی معاملہ کچھ اسی طرح کا ہے خیر اہل محبت میں سے جو بھی ملتا ہے وہ چند نصیحتیں ضرور کرتا ہے خصوصا یہاں کے موسم اور رہن سہن کے حوالے سے اورآخری نصیحت جو سب نے باری باری کی کہ یہاں وٹامن ڈی کا بہت زیادہ خیال رکھنا ہے ورنہ گزرا وقت پھر کبھی ھاتھ نہیں آئے گا
قارئین ۔۔۔۔ وٹامن ڈی ہڈیوں کو مضبوط بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ سورج ہے۔ مگراس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وٹامن ڈی کی زیادتی خود صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس کے نتیجے میں بھوک کی کمی سے لے کر گردوں کی بیماری تک جیسے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ مستقل سورج میں رہتے ہیں، ان میں وٹامن ڈی کی زیادتی کیوں نہیں ہوتی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی جلد ضرورت پوری ہونے پر وٹامن ڈی بنانا بند کر دیتی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے یو پی ایس سے منسلک بیٹری خالی ہونے پر بھرتی رہتی ہے اور جیسے ہی بیٹری بھر جاتی ہے سسٹم بجلی بھرنا بند کر دیتا ہے۔ انسانی جلد یہی کام کرتی ہے۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ بیٹری ہر تھوڑ ے عرصے بعد خراب ہوتی رہتی ہے اور انسانی جلد بغیر خراب ہوئے ساری زندگی یہ کام کرتی رہتی ہے۔
انسانی جلد میں ہونے والا یہ عمل ان بے گنتی مظاہر میں سے ایک ہے جو اس کرہ ارض پر زندگی اور خاص کر انسانی زندگی کوممکن بناتے ہیں۔ آج کے انسان نے ہر دور سے بڑھ کر ان عجیب و غریب مظاہر کو دریافت کر لیا ہے جو زبان حال سے پکار کر یہ بتا رہے ہیں کہ یہ کارخانہ ایک حکیم و علیم رب کی قدرت اور ربوبیت کا شاہکار ہے۔
مگر عجیب المیہ ہے کہ آج کا انسان ہر دور سے بڑھ کر اپنے اس خالق اور مالک کو بھولا ہوا ہے۔ یہ انسان خدا کو ماننے کے لیے تیارنہیں۔ یہ انسان اس کی شکرگزاری کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ انسان اس کے حکم کے سامنے اپنے تعصبات اور خواہشات کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ کیسا عجیب ہے یہ انسان اور کیسی عجیب ہے اس کی یہ بے حسی۔۔اور کتنا کریم ہے وہ رب کہ پھر بھی کھتا ہے کہ آ میرے بندےآ میرے تیرے لیے میرے دامن رحمت میں بھت وسیع جگہ ہے اور تجھے اس کے علاوہ کہیں اور جگہ نہ ملے گی اور کوئی تجھے اپنے دامن میں اتنے پیار سے جگہ نہیں دے گا
بقول سیدی اقبال ،
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
میرے جرم خانہ خراب کو تیرے عفو بندہ نواز میں
اور سید خورشید گیلانی فرمایا کرتے کہ
،،،، چھوٹے نہ گناہ ہم سے چھوڑا نہ کرم اس نے
آئیے آج بھی وقت ہے اس کے دامن کرم سے وابستہ ہونے کا اور اس کی رحمت کرم مسلسل آوازیں دی رہی ہے کہ ارجعی الی ربک ۔

0 comments:

Post a Comment