One person in life also returned from the disappointment due to our words and taking the hope of hope, so understand that the goal of coming into our world is completely accomplished. And indeed it is easy to deal with
Wow! What kind of worship is God's need to be patient and guarded to ask for it to bring the record of loyalty to the past, The only broken heart and the belief that Allah is the one who solves my problem is sufficient to accept it. Syed Israr Ahmed Bukhari.
"Life is also a way of playing cards. It has ever won the necklace. Sometimes the leaves come good and never come." Sometimes the partner is quarrelsome. There is peace and there is a calculation. In the same way we play our cards, we forget that there is a world outside these addresses ...... !! "
We must forgive humans ... it is the foundation of our soil that man is a slavery and he is always on the occasional occasion, he is sure to have his sins and regards mistakes.
Punishment and punishment are exactly in the hands of God as honor and humility, sustenance and death.
Sometimes the time of our hatred becomes so long that the person who is oppressed will leave, but we do not forgive .. And then .. the mirror that mirrors us is not of any oppression ... that too It is doubtful of a tyrant ...
We should be human and others should only understand humanity.
Aie gunbad e khazra kay makeen, Meri madad ker Ya phir yeh bata, Kon mera teray siwa hai.
Taiba ke jaane wale, Jakar baray aadab say Mera bhi kisa e gham, Kehna shah e arab say. Taiba Ke Jane Wale Taiba Kay Jaane Walay
Kehna kay shah e aali, eik ranj o gham ka mara Dono jahan mein iska, hai app hi sahara Halaat e pur aalam say, har dam guzar raha hai Aur kanptay labhoon say, faryaad ker raha hai
Baaray gunah apna, hai dosh per uthaye Koi nahin hai aisa, jo puchanay ko aiye Bhatka hua musafar manzil ko dhundta hai Tarikiyoon mein mah e kamil ko dhundta hai
Senay mein hai andhera, dil hai siyah khana x2 Yeh sab meri haqeeqat sarkar ko sunana
Kehna meray Nabi say, mehroom hoon khushi say, sar per eik abray gham hai Ashkoon say aankh naam hai, pamale zindagi hoon, sarkar ummati houn, Ummat kay rehnuma ho, kuch arz e hal sunlo, faryaad ker raha houn, Mein dil figar kab say, mera bhi kisa e gham kehna shahe arab sai.
Taiba kay janay walay, Jakar baray aadab say Mera bhi kisa e gham, Kehna shah e arab say. Teiba Ke Jane Vale Taiba Kay Jaane Walay
Kehna kay kha raha houn, mein thokarein jahan mein Tum hee batao aaqa, jaoon bhala kahan main Mehsoos ker raha houn, duniya hai aik dhoka Matlab kay yaar hain sab, koi nahin kisi ka Kis ko mein apna janoon, kis ka main loun sahara Mujko to meray aaqa hai aap ka sahara
Tum hi suno gay meri, tum hee karam karo gay Dono jahan mein tumhi, mera bharam rakho gay.
Tum daad kha e alam, mein eik naseeb e barham Tum bay kasoun kay wali, main bay nawas wali Tum aasiyoon ka yaara, mein gardishoon ka mara Rehmat ho tum sarapa, main murtiqam khata ka Houn sharam sar apnay, aamal kay sabab say Mera bhi kisa e gham, Kehna shah e arab say
Taiba kay janay walay, Jakar baray aadab say Mera bhi kisa e gham, kehna shah e arab say. Taiba Ke Janay Wale Taiba Ke Janay Wale
Aie aazam e madina, jaa kar Nabi say kehna Soz e gham e aalam say, aab jal raha hai seena Kehna kay dil mein lakhoon armaan bharay huay hain Kehna kay hasratoon kay nashtar chubhay huey hein Hai arzoo yeh dil ki, mein bhi madinay jayoun Sultan e dojahan ko, sab dagh e dil dikhoon.
Katoun hazar chakar, taiba ki har gali kay Youn hee guzar doun mein, aayam zindagi kay.
Phooloon pay jaan nisaroon, katoun pay dil ko waroun Zaroun ko doun salami, dar ki karoun ghulami Deewar o dar ko choumoon, qadmoon pay sar ko rakh doon Mehboob say lipat kar, rota rahoun bara ber Aalam kay dil mein hai yeh, hasrat najanay kab say Mera bhi kisa e gham, kehna shah e arab say
Taiba kay janay walay, Jakar baray aadab say Mera bhi kisa e gham, Kehna shah e arab say. Taiba Ke Janay Wale Taiba Ke Janay Wale
وٹامن ڈی اور عجائبات قدرت ۔۔۔۔ از محمد طاہر عزیز ، اوسلو ،ناروے
قارئین گرامی ۔۔۔ مجھے یہاں اوسلو ناروے میں تقریبا 9 ماہ ہونے کو ہیں یہاں مسلم آبادی کثیر تعداد میں موجود ہے خصوصا اہل پاکستان کو ناروے کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے ، مسلم آبادی میں محب وطن اور محب دین بھی موجود اور دین بیزار طبقے بھی بکثرت موجود بلکہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بھی موجود اور ماں کوگالی دے کر دشمن سے داد پانے والے بھی اکا دکا پائے جاتے ہیں مگر محبت کرنے والے ان کی نسبت کہیں زیادہ اسی لیے بقول حضرت سعدی علیہ الرحمۃ کے میرے پاس وقت نہیں نفرت کرنے والوں کی نفرت میں پریشان ہونے کا میں مصروف رہتا ہوں ان کی محبت میں جو حد سے زیادہ محبت کرتے ہیں اور ھمارا بھی معاملہ کچھ اسی طرح کا ہے خیر اہل محبت میں سے جو بھی ملتا ہے وہ چند نصیحتیں ضرور کرتا ہے خصوصا یہاں کے موسم اور رہن سہن کے حوالے سے اورآخری نصیحت جو سب نے باری باری کی کہ یہاں وٹامن ڈی کا بہت زیادہ خیال رکھنا ہے ورنہ گزرا وقت پھر کبھی ھاتھ نہیں آئے گا قارئین ۔۔۔۔ وٹامن ڈی ہڈیوں کو مضبوط بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ سورج ہے۔ مگراس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وٹامن ڈی کی زیادتی خود صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس کے نتیجے میں بھوک کی کمی سے لے کر گردوں کی بیماری تک جیسے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ مستقل سورج میں رہتے ہیں، ان میں وٹامن ڈی کی زیادتی کیوں نہیں ہوتی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی جلد ضرورت پوری ہونے پر وٹامن ڈی بنانا بند کر دیتی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے یو پی ایس سے منسلک بیٹری خالی ہونے پر بھرتی رہتی ہے اور جیسے ہی بیٹری بھر جاتی ہے سسٹم بجلی بھرنا بند کر دیتا ہے۔ انسانی جلد یہی کام کرتی ہے۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ بیٹری ہر تھوڑ ے عرصے بعد خراب ہوتی رہتی ہے اور انسانی جلد بغیر خراب ہوئے ساری زندگی یہ کام کرتی رہتی ہے۔
انسانی جلد میں ہونے والا یہ عمل ان بے گنتی مظاہر میں سے ایک ہے جو اس کرہ ارض پر زندگی اور خاص کر انسانی زندگی کوممکن بناتے ہیں۔ آج کے انسان نے ہر دور سے بڑھ کر ان عجیب و غریب مظاہر کو دریافت کر لیا ہے جو زبان حال سے پکار کر یہ بتا رہے ہیں کہ یہ کارخانہ ایک حکیم و علیم رب کی قدرت اور ربوبیت کا شاہکار ہے۔
مگر عجیب المیہ ہے کہ آج کا انسان ہر دور سے بڑھ کر اپنے اس خالق اور مالک کو بھولا ہوا ہے۔ یہ انسان خدا کو ماننے کے لیے تیارنہیں۔ یہ انسان اس کی شکرگزاری کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ انسان اس کے حکم کے سامنے اپنے تعصبات اور خواہشات کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ کیسا عجیب ہے یہ انسان اور کیسی عجیب ہے اس کی یہ بے حسی۔۔اور کتنا کریم ہے وہ رب کہ پھر بھی کھتا ہے کہ آ میرے بندےآ میرے تیرے لیے میرے دامن رحمت میں بھت وسیع جگہ ہے اور تجھے اس کے علاوہ کہیں اور جگہ نہ ملے گی اور کوئی تجھے اپنے دامن میں اتنے پیار سے جگہ نہیں دے گا بقول سیدی اقبال ، نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی میرے جرم خانہ خراب کو تیرے عفو بندہ نواز میں اور سید خورشید گیلانی فرمایا کرتے کہ ،،،، چھوٹے نہ گناہ ہم سے چھوڑا نہ کرم اس نے آئیے آج بھی وقت ہے اس کے دامن کرم سے وابستہ ہونے کا اور اس کی رحمت کرم مسلسل آوازیں دی رہی ہے کہ ارجعی الی ربک ۔
غزوہ بدر میں مسلمانوں کو شاندار فتح ہوئی تھی۔ اس کے بعد علاقے کی قوتوں بشمول قریشِ مکہ اور یہودیوں کو اندازا ہوا کہ اب مسلمان ایک معمولی قوت نہیں رہے۔ شکست کھانے کے بعد مشرکینِ مکہ نہایت غصے میں تھے اور نہ صرف اپنی بے عزتی کا بدلہ لینا چاہتے تھے بلکہ ان تجارتی راستوں پر دوبارہ قبضہ کرنا چاہتے تھے جن کی ناکہ بندی مسلمانوں نے غزوہ بدر کے بعد کر دی تھی۔ جنگ کے شعلے بھڑکانے میں ابوسفیان ، اس کی بیوی ہندہ اور ایک یہودی کعب الاشرف کے نام نمایاں ہیں۔ ہندہ نے اپنے گھر محفلیں شروع کر دیں جس میں اشعار کی صورت میں جنگ کی ترغیب دی جاتی تھی۔ ابو سفیان نے غزوہ احد سے کچھ پہلے مدینہ کے قریب ایک یہودی قبیلہ کے سردار کے پاس کچھ دن رہائش رکھی تاکہ مدینہ کے حالات سے مکمل آگاہی ہو سکے۔ ابوجہل غزوہ بدر میں مارا گیا تھا جس کے بعد قریش کی سرداری ابوسفیان کے پاس تھی جس کی قیادت میں مکہ کے دارالندوہ میں ایک اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ جنگ کی تیاری کی جائے۔ اس مقصد کے لیے مال و دولت بھی اکٹھاکی گئی۔ جنگ کی بھر پور تیاری کی گئی۔ 3000 سے کچھ زائد سپاہی جن میں سے سات سو زرہ پوش تھے تیار ہو گئے۔ ان کے ساتھ 200 گھوڑے اور 300 اونٹ بھی تیار کیے گئے۔ کچھ عورتیں بھی ساتھ گئیں جو اشعار پڑھ پڑھ کر مشرکین کو جوش دلاتی تھیں۔ ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے یہ ارادہ کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجا چبائے گی چنانچہ اس مقصد کے لیے اس نے حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کے لیے اپنے ایک غلام کو خصوصی طور پر تیار کیا۔ بالآخر مارچ 625ء میں یہ فوج مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے روانہ ہو گئی۔ [2][3]۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس نے ، جو مکہ ہی میں رہتے تھے، انہیں مشرکین کی اس سازش سے آگاہ کر دیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انصار و مہاجرین سے مشورہ کیا کہ شہر میں رہ کر دفاع کیا جائے یا باہر جا کر جنگ لڑی جائے۔ فیصلہ دوسری صورت میں ہوا یعنی باہر نکل کر جنگ لڑی جائے چنانچہ 6 شوال کو نمازِ جمعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اصحاب کو استقامت کی تلقین کی اور 1000 کی فوج کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہو گئے۔ اشواط کے مقام پر ایک منافق عبداللہ بن ابی 300 سواروں کے ساتھ جنگ سے علاحدہ ہو گیا اور بہانہ یہ بنایا کہ جنگ شہر کے اندر رہ کر لڑنے کا اس کا مشورہ نہیں مانا گیا۔ ہفتہ 7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) کو دونوں فوجیں احد کے دامن میں آمنے سامنے آ گئیں۔ احد کا پہاڑ مسلمانوں کی پشت پر تھا۔ وہاں ایک درہ پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عبداللہ بن جبیر کی قیادت میں پچاس تیر اندازوں کو مقرر کیا تاکہ دشمن اس راستے سے میدانِ جنگ میں نہ آ سکے۔ [3][4]۔
غزوہ احد
جنگ احد 7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔